جمعہ، 9 جنوری، 2015

اعتبار ساجد : مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں

اعتبار ساجد : مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں


مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں
مرے شعر ، میری صداقتیں ، مری دھڑکنیں ، مری چاہتیں

تجھے جذب کرلوں لہو میں میں کہ فراق کا نہ رہے خطر
تری دھڑکنوں میں اتار دوں میں یہ خواب خواب رفاقتیں

یہ ردائے جاں تجھے سونپ دوں کہ نہ دھوپ تجھ کو کڑی لگے
تجھے دکھ نہ دیں مرے جیتے جی سرِ دشت غم کی تمازتیں

مری صبح تیری صدا سے ہو ، مری شام تیری ضیا سے ہو
یہی طرز پرسشِ دل رکھیں تری خوشبوں کی سفارتیں

کوئی ایسی بزم بہار ہو میں جہاں یقین دلا سکوں
کہ ترا ہی نام ہے فصلِ گل ، کہ تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

ترا قرض ہیں مرے روز و شب ، مرے پاس اپنا تو کچھ نہیں
مری روح ، میری متاعِ فن ، مرے سانس تیری امانتیں

جگرمُراد آبادی - کیا بتائیں، عشق ظالم کیا قیامت ڈھائے ہے



کیا بتائیں، عشق ظالم کیا قیامت ڈھائے ہے
یہ سمجھ لو، جیسے دل سینے سے نِکلا جائے ہے
جب نہیں تُم ، تو تصوّر بھی تُمھارا کیا ضرور؟
اِس سے بھی کہہ دو کہ یہ تکلیف کیوں فرمائے ہے
ہائے، وہ عالم نہ پُوچھو اِضطرابِ عِشق کا
یک بہ یک جس وقت کچھ کچھ ہوش سا آجائے ہے
کِس طرف جاؤں، کِدھر دیکھوں، کِسے آواز دُوں
اے ہجومِ نا مُرادی! جی بہت گھبرائے ہے
جگرمُراد آبادی

اتوار، 28 ستمبر، 2014

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں

پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں‌کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

تاروں کی بہاروں میں‌بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں پہ ہنس ہنس کے گزارہ کرتے ہیں

(قمر جلالوی)

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں

عجب دل کی بستی عجب دل کی وادی
ہر اک موڑ موسم نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم نے بھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ یہاں بارشوں کا

مرادوں کی منزل کے سپنوں میں کھوئے
محبت کی راہوں پہ ہم چل پڑے تھے
ذرا دور چل کے جب آنکھیں کھلیں تو
کڑی دھوپ میں ہم اکیلے کھڑے تھے

جنہیں دل سے چاہا جنہیں دل سے پوجا
نظر آرہے ہیں وہی اجنبی سے
روایت ہے شاید یہ صدیوں پرانی
شکایت نہیں ہے کوئی زندگی سے

سدرشن فاکر


یہ دولت بھی لے لو ، یہ شہرت بھی لے لو ، بھلے چھین لو میری جوانی 
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون ، وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی وہ سب سے پرانی نشانی ، وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی 
وہ نانی کی باتوں میں وہ پریوں کا ڈیرا، وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پہرا 
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی ، وہ چھوٹی سی راتیں ، وہ لمبی کہانی 

کڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا ، وہ چڑیاں وہ بُلبل وہ تتلی پکڑنا 
وہ گڑیا کی شادی پر لڑنا جھگڑنا ، وہ جھولوں سے گرنا گر کے سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے ، وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی 

کبھی وہ ریت کے ٹیلے پر جانا ، گھروندے بنانا بنا کر مٹانا 
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی ، وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی 
نہ دُنیا کا غم تھا ، نہ رشتوں کے بندھن ، بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی ​

 سدرشن فاکر


میرے دکھ کی کوئی دوا نہ کرو 
مجھ کو مجھ سے ابھی جدا نہ کرو
ناخدا کو خدا کہا ھے تو پھر 
ڈوب جاؤ، خدا خدا نہ کرو
یہ سکھایا ھے دوستی نے ھمیں 
دوست بن کر کبھی وفا نہ کرو
عشق ھے عشق، یہ مذاق نہیں 
چند لمحوں میں فیصلہ نہ کرو
عاشقی ھو کہ بندگی، فاکر 
بے دلی سے تو ابتدا نہ کرو

"سدرشن فاکر"

ہفتہ، 13 ستمبر، 2014

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخمِ دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان دردِ شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق، کائناتِ دگر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس!
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

(رئیس امروہوی)