ہفتہ، 13 ستمبر، 2014

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخمِ دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان دردِ شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق، کائناتِ دگر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس!
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

(رئیس امروہوی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں