خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم
ذرے کے زخمِ دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان دردِ شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق، کائناتِ دگر کر رہے ہیں ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس!
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
(رئیس امروہوی)
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم
ذرے کے زخمِ دل پہ توجہ کئے بغیر
درمان دردِ شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دن
یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ
تخلیق، کائناتِ دگر کر رہے ہیں ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیس!
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
(رئیس امروہوی)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں